نئی نسل پر توجہ دیں .... جویریہ صدیق

نئی نسل عجیب مسائل سے دوچار ہے اور کوئی اس Ú©ÛŒ بات سننے Ú©Ùˆ تیار نہیں۔ سب اس Ú©Ùˆ ایک روبوٹ سمجھتے ہیں، چاہتے ہیں کہ نوجوان ان Ú©Û’ اشاروں پر چلیں۔ کیا بچوں Ú©ÛŒ اپنی کوئی مرضی‘ سمجھ بوجھ اور خواہشات نہیں ہوتیں؟ بالکل ہوتی ہیں، انسان ہوتا ہی خواہشات Ùˆ جذبات کا مجسمہ ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو لازم نہیں کہ وہ اپنے ماں باپ یا اپنے خاندان جیسا ہو‘ اس Ú©ÛŒ خواہشات اور عادات الگ بھی ہو سکتی ہیں مگر ہمارے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ڈاکٹر بنے گا یا انجینئر۔ یہ زبردستی Ú©ÛŒ خواہش بچے Ú©ÛŒ خواہشات Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ù„ کر رکھ دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کرکٹر بننا چاہتا ہو، اس Ù†Û’ میوزک سیکھنا ہو، اس کا رجØ+ان ادب یا آرٹ Ú©ÛŒ جانب ہو، اس Ù†Û’ فن پارے بنانا ہوں لیکن والدین Ú©ÛŒ خواہش ہوتی ہے کہ ایسی ڈگری Ù„ÛŒ جائے جس سے بچہ اچھا کما سکے اور معاشرے میں اس Ú©ÛŒ عزت ہو۔ اس طرØ+ بہت سے طالب علم مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ زندگی میں Ú©Ú†Ú¾ اور کرنا چاہتے ہیں لیکن والدین Ú©Û’ اØ+ترام میں وہ اُس شعبے میں Ú†Ù„Û’ جاتے ہیں جو انہیں پسند نہیں ہوتا۔ Ú©Ú†Ú¾ Ù¾Ú‘Ú¾ Ù„Ú©Ú¾ جاتے ہیں اور ڈگری بھی Ø+اصل کر لیتے ہیں مگر Ú©Ú†Ú¾ ناکام ہو کر بیمار Ù¾Ú‘ جاتے ہیں، Ú©Ú†Ú¾ منشیات استعمال کرنے لگتے ہیں، بسا اوقات تو خودکشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت والدین Ú©Ùˆ اØ+ساس ہوتا ہے کہ ہم سے کیا غلطی ہوئی۔ Ú©Ú†Ú¾ باتیں بچوں Ú©Ùˆ والدین Ú©ÛŒ مان لینی چاہئیں اور Ú©Ú†Ú¾ والدین Ú©Ùˆ بچوں Ú©ÛŒ خواہشات تسلیم کر لینی چاہئیں، اس طرØ+ زندگی بہت آسان اور Ø+سین ہو جائے گی۔ یوں معاشرے میں بھی توازن آ سکتا ہے۔ یہ امر پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ نئی نسل کبھی بھی پرانی نسل جیسی نہیں ہوتی۔
تعلیم اور شادی‘ دونوں ایسے معاملات ہیں جن میں والدین اور معاشرے Ú©Ùˆ نئی نسل Ú©ÛŒ بھی سننی چاہیے کیونکہ اس پر ان Ú©ÛŒ ساری زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ ان معاملات پر سختی ان Ú©ÛŒ ساری زندگی Ú©Ùˆ تباہ کر سکتی ہے، انہیں غلط‘ صØ+ÛŒØ+ Ú©ÛŒ تمیز ضرور دینی چاہیے لیکن ان Ú©Û’ دل Ú©ÛŒ بات اور ان Ú©Û’ جذبات کا بھی اØ+ترام کرنا چاہیے۔ بچے پڑھتے رہ جاتے ہیں‘ پھر نوکریاں ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو اسی میں کئی کئی سال Ù„Ú¯ جاتے ہیں پھر معاشی طور پر مستØ+Ú©Ù… ہونے Ú©Û’ چکر میں ان Ú©ÛŒ شادی Ú©ÛŒ اصل عمر Ù†Ú©Ù„ جاتی ہے۔ میرے نزدیک بلوغت Ú©Û’ بعد شادی میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ 18 سے 20 سال تک لڑکیوں‘ Ù„Ú‘Ú©ÙˆÚº Ú©ÛŒ شادی کر دینی چاہیے۔ اس دوران وہ اپنی تعلیم مکمل کریں اور اپنے پیروں پر Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو جانے Ú©Û’ بعد اپنی نسل آگے بڑھائیں۔ شادیوں Ú©Û’ نام پر اسراف کا جو طوفانِ بدتمیزی اس وقت ملک میں عروج پر ہے‘ اس سے کہیں بہتر ہے کہ شادیوں پر لاکھوں خرچ کرنے Ú©Û’ بجائے وہ پیسے اولاد Ú©ÛŒ تعلیم اور ان Ú©Û’ کاروبار میں لگا دیے جائیں لیکن ان Ú©ÛŒ شادیاں وقت پر کر دی جائیں تاکہ وہ برائی Ú©ÛŒ طرف مت راغب ہوں۔ یہ نسل اچھی خوارک‘ اچھی طبی سہولتوں اور اچھے ماØ+ول Ú©ÛŒ وجہ سے جلدی بالغ ہو رہی ہے، ان Ú©ÛŒ شادیاں بھی جلد ہونی چاہئیں۔ اس سے قطعاً یہ نہ سمجھا جائے کہ میں Ú©Ù… عمر بچوں Ú©ÛŒ شادیوں Ú©ÛŒ Ø+مایت کر رہی ہوں، شادی بالغ اور جوان Ù„Ú‘Ú©Û’ اور Ù„Ú‘Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ ہی ہونی چاہیے اورجوڑ بھی برابری کا ہونا چاہیے۔ ایک جیسی عمریں‘ ایک جیسی تعلیم اور مذہبی Ùˆ سماجی رجØ+ان بھی ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ باقی ذات برادری وغیرہ جیسی چیزیں ایک طرف رکھ دینی چاہئیں‘ یہ دقیانوسی چیزیں ہیں۔ اگر لڑکا Ù„Ú‘Ú©ÛŒ خوش ہیں تو ان Ú©Ùˆ نکاØ+ Ú©Û’ بندھن میں باندھ دینا چاہیے۔ ایسے معاملات میں ضد اور انا اکثر دونوں خاندانوں Ú©Ùˆ بھاری پڑتی ہے۔ نکاØ+ مسجد میں سادگی سے ہو اور اس Ú©Û’ بعد شام میں سب رشتہ داروں Ú©Ùˆ ون ڈش کھلا کر شادی Ú©ÛŒ تقریبات کا اختتام کر دینا چاہیے۔ اسراف اللہ Ú©Ùˆ پسند نہیں ہے‘ جتنا پیسہ آپ بچا لیں گے‘ وہ آپ Ú©Û’ ہی کام آئے گا۔ نمود Ùˆ نمائش سے کہیں بہتر کفایت شعاری ہے، یہ پیسے آپ Ú©ÛŒ اولاد Ú©Û’ کام آئیں Ú¯Û’ اور اگر اللہ Ù†Û’ بہت نوازا ہے تو دوسروں Ú©ÛŒ مدد کریں۔
میں بار بار بچے‘ بچیوں Ú©ÛŒ جلد شادی پر اس لئے زور دے رہی ہوں کہ ایسا نہ ہونے Ú©Û’ سبب معاشرے میں سانØ+ات جنم Ù„Û’ رہے ہیں، جیسے ابھی ایک بچی Ú©Û’ ساتھ ہوا کہ اسقاطِ Ø+مل Ú©Û’ دوران وہ جان سے Ú†Ù„ÛŒ گئی، لڑکا اس Ú©Ùˆ مردہ Ø+الت میں ہسپتال Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر بھاگ گیا۔ Ù„Ú‘Ú©ÛŒ تعلیم Ú©ÛŒ غرض سے شہر آئی تھی مگر پیار Ù…Ø+بت میں گناہ Ú©ÛŒ راہ پر Ú†Ù„ پڑی۔ اگر لڑکا اچھا ہوتا تو وہ اس سے نکاØ+ کرتا لیکن یہاں تو ہر کوئی دوسرے Ú©Ùˆ استعمال Ú©ÛŒ چیز سمجھتا ہے، استعمال کیا اور Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا۔ اب تو تواتر سے ایسی خبریں سننے Ú©Ùˆ ملتی رہتی ہیں۔ ہر انسان پیار Ú©Û’ قابل اور عزت Ùˆ اØ+ترام کا مستØ+Ù‚ ہے۔ لڑکیوں Ú©Ùˆ ایسے افراد سے دور رہنا چاہیے جوانہیں پوشیدہ تعلق رکھنے پر مجبور کریں۔ یہاں میری والدین سے گزارش ہے کہ قبل اس Ú©Û’ کہ کوئی آپ Ú©Û’ بچوں Ú©Û’ جذبات سے کھیلے‘ آپ انہیں نکاØ+ Ú©Û’ پاکیزہ بندھن میں باندھ دیں۔ نوجوان اس عمر میں غلط صØ+بت یا بے راہ روی کا شکار ہو سکتے ہیں‘ ان کا خوب خیال رکھیں۔
اگر ہم بات کریں بچوں Ú©Û’ تعلیمی مسائل Ú©ÛŒ تو اس پر بھی بچے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ کورونا Ú©ÛŒ وبا Ú©ÛŒ وجہ سے وہ سارا سال گھر پر رہے‘ ان کا نصاب مکمل کور نہیں ہو سکا، آن لائن کلاسز میں بھی ان Ú©Ùˆ بہت سے مسائل کا سامنا رہا، بہت سے تو انٹرنیٹ Ú©ÛŒ عدم فراہمی Ú©Û’ باعث کلاسز میں شرکت سے بھی Ù…Ø+روم رہے؛ تاہم جب تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ ہوا‘ تب بھی کورونا عروج پر تھا اور اب بھی ہے؛ اسی لیے طالبعلم اØ+تجاج کر رہے ہیں کہ اگر پڑھایا آن لائن گیا ہے تو امتØ+انات بھی آن لائن ہوں۔ گزشتہ روز بھی مارگلہ روڈ پر ٹریفک بلاک تھی‘ پتا چلا کہ طالبعلم مطالبہ کر رہے ہیں۔ طالب علموں Ú©Û’ مطالبات سننے چاہئیں اور جس قدر قابلِ عمل ہوں‘ انہیں تسلیم بھی کیا جانا چاہیے؛ تاہم ان پر تشدد اور مار پیٹ ناقابلِ قبول ہے، یہ ہمارا مستقبل اور قوم Ú©Û’ معمار ہیں‘ ان Ú©Ùˆ سمجھا جائے‘ ان Ú©ÛŒ بات سنی جائے اور اگر ممکن ہو تو امتØ+انات آن لائن لئے جائیں۔ بچے اس عمرمیں جذباتی ہوتے ہیں، ان Ú©Ùˆ مار کر، ڈرا دھمکا کر یا ایکسپیل کر Ú©Û’ معاملے Ú©Ùˆ Ø+Ù„ نہ کیا جائے، اُن Ú©Û’ ساتھ افہام Ùˆ تفہیم سے معاملات Ø+Ù„ کئے جائیں۔ دوسری جانب اساتذہ Ú©Û’ اپنے خدشات ہیں کہ بچے آئن لائن امتØ+ان میں نقل کریں Ú¯Û’ØŒ اگر دورانِ امتØ+ان لائٹ Ú†Ù„ÛŒ گئی یا انٹرنیٹ کا ایشو ہو گیا تو کیا ہو گا، جیسے بہت سے طالب علم انٹرنیٹ Ú©ÛŒ سہولت میسر نہ ہونے Ú©ÛŒ وجہ سے آن لائن کلاسز میں شریک نہیں ہو سکے، وہ امتØ+ان کس طرØ+ دیں Ú¯Û’ØŒ یہ بھی قابلِ غور ایشوز ہیں، ان پر بیٹھ کر بات چیت Ú©ÛŒ جانی چاہیے۔ طالب علموں Ú©Ùˆ بھی اساتذہ کا اØ+ترام کرنا چاہیے، انہیں اپنے مطالبات تØ+مل Ú©Û’ ساتھ انتظامیہ Ú©Û’ سامنے رکھنے چاہئیں۔
نوجوان اس ملک کا اثاثہ ہیں، ان Ú©ÛŒ زندگی سے جڑے معاملات Ú©Ùˆ والدین‘ اساتذہ اور معاشرے Ú©Ùˆ بہت سنجیدگی سے Ø+Ù„ کرنا چاہیے، ان Ú©Ùˆ باغی نہیں‘ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانا ہے۔ اس Ú©Û’ لیے لازم ہے کہ ان Ú©Ùˆ درست مذہبی تعلیمات سے بھی روشناس کرایا جائے، نرمی سے ان Ú©Ùˆ نماز اور قرآن Ú©ÛŒ طرف لائیں تاکہ وہ اپنی زندگی Ú©Ùˆ درست راہ پر گامزن کر سکیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہو سکیں۔